ہے کس کا عکس، دل کے قریں، چار سو ہے کون؟
گردِ گماں چھٹے تو کھلے روبرو ہے کون؟
کس کے بدن کی دھوپ نے لہریں اجال دیں؟
اے عکسِ ماہتاب تہِ آب جو ہے کون؟
کیا جانے سنگ بار ہوا کوئے یار کی
پیوند کس قبا میں لگے، بے رفو ہے کون؟
نوکِ سناں پہ کیوں نہ سجے اپنی سرکشی
جز شہر یار شہر میں اپنا عدو ہے کون؟
اے مصلحت کی تیز ہوا، جز غریب شہر
اس شہرِ ننگ و نام میں بے آبرو ہے کون؟
پلکوں پہ کون چنتا ہے رسوائیوں کے دھول
رسوا ہمارے ساتھ یہاں کو بکو ہے کون؟
محسؔن اب اپنا آپ بھلایا ہے اس طرح
مجھ سے خود اپنے عکس نے پوچھا کہ" تو ہے کون؟" 


0 Comments ::

Post a Comment