رہینِ خوف نہ وقفِ ہراس رہتا ہے
مگر یہ دل کہ اکثر اداس رہتا ہے
یہ سانولی سی فضائیں یہ بے چراغ نگر!
یہیں کہیں وہ ستارہ شناس رہتا ہے
اسی کو اوڑھ کے سوتی ہے رات خود پہ مگر
وہ چاندنی کی طرح بے لباس رہتا ہے
میں کیا پڑھوں کوئی چہرہ کہ میری آنکھوں میں
ترے بدن کو کوئی اقتباس رہتا ہے
کہاں بھلوئیے اس کو کہ وہ بچھڑ کے سدا
خیال بن کے محیط حواس رہتا ہے
بھٹک بھٹک کے اسے ڈھونڈتے پھرو محسؔن
وہ درمیاں یقین و قیاس رہتا ہے


0 Comments ::

Post a Comment