ہمارے بعد چلی رسم دوستی کہ نہیں؟
ہوا کی زد پہ کوئی شمع پھر جلی کہ نہیں؟
بچھڑ کے جب بھی ملے مجھ سے پوچھتا ہے
وہ شخص
کہ ان دنوں کوئی تازہ غزل ہوئی کہ نہیں؟
سنا ہے عام تھی کل شب کو چاند کی بخشش
بجھے گھروں میں ابھگی اتری ہے چاندنی کہ نہیں؟
نکل کے جس سے ہوا اپنا درد آوارہ
کسی کے دل میں وہ محفل بھی پھر سجی کہ نہیں؟
وہ رہگذر جو اندھیروں میں سانس لیتی
تھی
تمہارے نقشِ قدم قدم سے چمک اٹھی کہ نہیں؟
دیارِ ہجر سے آئے ہو، کچھ کہو محسؔن
کہ شامِ غم بھی کسی موڑ پر ملی کہ نہیں؟
0 Comments ::
Post a Comment