تجھے اداس بھی کرنا تھا خود بھی رونا تھا
یہ حادثہ بھی مری جاں کبھی
تو ہونا تھا
نمو کا رنج نہ ابرِ گریزپا سے ملال
کہ مجھ کو بانجھ زمینوں
میں بیچ بونا تھا
کیا گردِ رہِ رفتگاں کو اوڑھ لیا
کفن بدن کے لہو سے دھونا
تھا
جو داستاں اسے کہنا تھی پھر نہ گفتہ رہی
کہ میں بھی تھک سا گیا تھا،
اسے بھی سونا تھا
میں تختِ ابر پہ سویا تھا رات بھر محسؔن
کھلی جو آنکھ تو صحرا مرا
بجھونا تھا
0 Comments ::
Post a Comment