ہم سے مت پوچھو راستے گھر کے
ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے
کون سورج کی آنکھ سے دن بھر
زخم گنتا ہے شب کی چادر کے
صلح کر لی یہ سوچ کر میں نے
میرے دشمن نہ تھے برابر کے
خود سے خیمے جلا دئیے میں نے
حوصلے دیکھنے تھے لشکر کے
یہ ستارے یہ ٹوٹتے موتی!
عکس ہیں میرے دیدۂ تر کے
گر جنوں مصلحت نہ اپنائے
سر سے رشتے بہت ہیں پتھر کے
ہم بھی چنتے تھے سیپیاں اکثر
ہم بھی مقروض ہیں سمندر کے
آنکھ کے گرد ماتمی حلقے
سائے جیسے جلے ہوئے گھر کے
دوستوں کی زباں تو کھلنے دو
بھول جاؤ گے زخم خنجر کے
چاند بھی زرد پڑ گیا آخر
اجڑے آنگن میں روشنی کر کے
آنکھ نم بھی کرو تو بس اتنی
رنگ پھیکے پڑیں نہ منظر کے
کجکلا ہوں سے لڑ گئے محسؔن
ہم بھکاری حسینؑ کے در کے


0 Comments ::

Post a Comment